زمیں کو سجدہ کیا خوں سے با وضو ہو کر
زمیں کو سجدہ کیا خوں سے با وضو ہو کر
میں رزم گاہ سے لوٹا ہوں سرخ رو ہو کر
جہاں میں پھیل گئی دود شعلہ سے ظلمت
فلک پہ بہہ گیا سورج لہو لہو ہو کر
مجھے تھا دام اسیری نشیب دریا کا
اچھل گیا میں کناروں سے تند خو ہو کر
گریز پائی کو ہے گمرہی کا دشت بلا
خط سفر تو چمکتا ہے آب جو ہو کر
وہ لمس ذائقہ جس نے مری زباں کو دیا
بکھر نہ جائے کہیں صوت گفتگو ہو کر
کیا ہے پرسش احوال زخم نے رسوا
یہ چاک اور نمایاں ہوا رفو ہو کر
رہی نہ ٹوٹ کے گرنے سے میری یکتائی
میں پاش پاش ہوا خود سے دو بہ دو ہو کر
زبان خلق پہ شاہد میں حرف تلخ رہا
اڑی نہ خاک مری گرد آبرو ہو کر