Saleem Shahid

سلیم شاہد

سلیم شاہد کی غزل

    اب شہر کی اور دشت کی ہے ایک کہانی

    اب شہر کی اور دشت کی ہے ایک کہانی ہر شخص ہے پیاسا کہ میسر نہیں پانی میں توڑ بھی سکتا ہوں روایات کی زنجیر میں دہر کے ہر ایک تمدن کا ہوں بانی میں نے تری تصویر کو کیا رنگ دیے ہیں انداز بدل دیتا ہے لفظوں کے معانی اب بھی ہے ہواؤں میں گئے وقت کی آواز محفوظ ہے سینوں میں ہر اک یاد ...

    مزید پڑھیے

    میں وہ آنسو کہ جو مالا میں پرویا جائے

    میں وہ آنسو کہ جو مالا میں پرویا جائے تو وہ موتی کہ جسے دیکھ کے رویا جائے بحر کو بحر نہ سمجھے تو خطا‌ وار بنے اب تقاضا ہے سفینے کو ڈبویا جائے یہ بجا ہے کہ امانت میں خیانت نہ کرو احتیاطاً ہی سہی زخم کو دھویا جائے تھک گئے نظروں کے پاؤں بھی سیہ جنگل میں اب ذرا دیر ٹھہر جاؤ کہ سویا ...

    مزید پڑھیے

    بجھ گئے شعلے دھواں آنکھوں کو پانی دے گیا

    بجھ گئے شعلے دھواں آنکھوں کو پانی دے گیا یہ اچانک موڑ دریا کو روانی دے گیا اب تو اس کی دھوپ میں جلتا ہے میرا تن بدن کیا ہوا وہ مہر جو صبحیں سہانی دے گیا جی میں زندہ ہو گئیں کیا خواہشیں بسری ہوئی پھر کوئی یوسف زلیخا کو جوانی دے گیا پھر ہوا احساس یوں مجھ کو کہ میں اک نقش ہوں کون ...

    مزید پڑھیے

    بے وضع شب و روز کی تصویر دکھا کر

    بے وضع شب و روز کی تصویر دکھا کر اب داد نہ مانگو مجھے زنجیر دکھا کر کیسی ہیں کف لوح پہ بے ربط لکیریں معنی نہ چھپاؤ مجھے تحریر دکھا کر اے شیشۂ جاں تجھ میں لہو ختم بھی ہوگا یہ نشہ اتر جائے گا تاثیر دکھا کر میں شمع شب ظلم ہوں آغاز سحر تک دل بجھنے لگا صبح کی تنویر دکھا کر کس شاخ پہ ...

    مزید پڑھیے

    خواہش کو اپنے درد کے اندر سمیٹ لے

    خواہش کو اپنے درد کے اندر سمیٹ لے پرداز بار دوش ہے تو پر سمیٹ لے اپنی طلب کو غیر کی دہلیز پر نہ ڈال وہ ہاتھ کھنچ گیا ہے تو چادر سمیٹ لے سرخی طلوع صبح کی لوح افق پہ لکھ سارے بدن کا خون جبیں پر سمیٹ لے یکجا نہیں کتاب ہنر کے ورق ہنوز ایام حرف حرف کا دفتر سمیٹ لے جو پیڑ ہل چکے ہیں ...

    مزید پڑھیے

    پھر کوئی محشر اٹھانے میری تنہائی میں آ

    پھر کوئی محشر اٹھانے میری تنہائی میں آ اپنے ہونے کی خبر لے کر کبھی بستی میں آ دیکھنا ٹھہرا تو پھر اک یہ تماشا بھی سہی آگ لگنے کی خبر سن کر ہی اب کھڑکی میں آ اے مرے ہونٹوں کی لذت شاخ کو بوجھل نہ کر اک ہلورے میں شجر سے ٹوٹ کر جھولی میں آ جرم بے لذت ہے ساحل پر تری تر دامنی یا پلٹ ...

    مزید پڑھیے

    گھر کے دروازے کھلے ہوں چور کا کھٹکا نہ ہو

    گھر کے دروازے کھلے ہوں چور کا کھٹکا نہ ہو بے سر و سامان کوئی شہر میں ایسا نہ ہو تیرگی کے غار سے باہر نکل کر بھی تو دیکھ اس زمیں کی کوکھ سے سورج کوئی نکلا نہ ہو میں کہ گویا بھی نہ ہو پایا کسی دیوار سے رہ گیا چپ سوچ کر شاید کوئی سنتا نہ ہو دشت میں جانے سے پہلے اپنے دل میں جھانک ...

    مزید پڑھیے

    سورج زمیں کی کوکھ سے باہر بھی آئے گا

    سورج زمیں کی کوکھ سے باہر بھی آئے گا ہوں منتظر کہ صبح کا منظر بھی آئے گا مٹی کا جسم لے کے چلے ہو تو سوچ لو اس راستے میں ایک سمندر بھی آئے گا ہر لحظہ اس کے پاؤں کی آہٹ پہ کان رکھ دروازے تک جو آیا ہے اندر بھی آئے گا کب تک یوں ہی زمین سے لپٹے رہیں قدم یہ زعم ہے کہ کوئی پلٹ کر بھی آئے ...

    مزید پڑھیے

    اس کو مل کر دیکھ شاید وہ ترا آئینہ ہو

    اس کو مل کر دیکھ شاید وہ ترا آئینہ ہو غائبانہ ہی تری اس کی شناسائی نہ ہو مجھ پہ ظاہر ہے ترے جی میں ہیں کیا کیا خواہشیں بات ایسی کر کہ جس میں تیری رسوائی نہ ہو احتیاطاً دیکھتا چل اپنے سائے کی طرف اس طرح شاید تجھے احساس تنہائی نہ ہو آسماں اک دشت کی صورت ستارے ریت ہیں تو لب دریا ...

    مزید پڑھیے

    میرے احساس کی رگ رگ میں سمانے والے

    میرے احساس کی رگ رگ میں سمانے والے اب کہاں ہیں مجھے دن رات ستانے والے دیکھ لیتے ہیں مگر آنکھ چرا جاتے ہیں دوست ہر وقت مجھے پاس بٹھانے والے بند پانی کی طرح بیکس و مجبور ہیں اب تند موجوں کی طرح شور مچانے والے ایک پتھر بھی سر راہ گزر رکھا ہے رات گہری ہے ذرا دھیان سے جانے والے کون ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 4