مردہ رگوں میں خون کی گرمی کہاں سے آئی

مردہ رگوں میں خون کی گرمی کہاں سے آئی
تھی شاخ سبز پھول میں سرخی کہاں سے آئی


یہ عمر رائیگاں یہ سفر خواب میں کٹا
پھر یہ تھکن یہ پاؤں پہ مٹی کہاں سے آئی


دیوار خونچکاں نہ مرا زخم سر ہے سرخ
یہ مصلحت بتا دل وحشی کہاں سے آئی


میں صلح جو ہوا غلط الزام سے خفا
اب پوچھتے ہو بات میں تلخی کہاں سے آئی


الزام تم پہ ہے لب گویا گریز کا
بے باک ہو تو پھر یہ خرابی کہاں سے آئی


مجھ جیسا کم سخن بھی ہے اس بار سخت گو
اس سست آب جو میں روانی کہاں سے آئی


کھلتا ہے موسموں کے تغیر کا مجھ سے رنگ
آخر مرے خمیر کی مٹی کہاں سے آئی