Saleem Raza Rewa

سلیم رضا ریوا

سلیم رضا ریوا کی غزل

    ہم نے ہر اک امید کا پتلا جلا دیا

    ہم نے ہر اک امید کا پتلا جلا دیا دشواریوں کو پاؤں کے نیچے دبا دیا میری تمام انگلیاں گھائل تو ہو گئیں لیکن تمہاری یاد کا نقشہ مٹا دیا میں نے تمام چھاؤں غریبوں میں بانٹ دی اور یہ کیا کہ دھوپ کو پاگل بنا دیا اس کے حسیں لباس پہ اک داغ کیا لگا سارا غرور خاک میں اس کا ملا دیا جو زخم ...

    مزید پڑھیے

    جب سے ان کی مہربانی ہو گئی

    جب سے ان کی مہربانی ہو گئی زندگی اب رات رانی ہو گئی اس نے مانگا زندگی سوغات میں نام اس کے زندگانی ہو گئی ابتدائے زندگی کی صبح سے شام تک پوری کہانی ہو گئی روٹھنا ہنسنا منانا پیار میں زندگی کتنی سہانی ہو گئی کھو گئے مصروفیت کی بھیڑ میں ختم اس میں زندگانی ہو گئی میں بھی ان کا ...

    مزید پڑھیے

    جس طرح سے پھولوں کی ڈالیاں مہکتی ہیں

    جس طرح سے پھولوں کی ڈالیاں مہکتی ہیں میرے گھر کے آنگن میں بیٹیاں مہکتی ہیں پھول سا بدن تیرا اس قدر معطر ہے خواب میں بھی چھو لوں تو انگلیاں مہکتی ہیں ماں نے جو کھلائی تھیں اپنے پیارے ہاتھوں سے ذہن میں ابھی تک وہ روٹیاں مہکتی ہیں عمر ساری گزری ہو جس کی حق پرستی میں اس کی تو قیامت ...

    مزید پڑھیے

    کہیں پہ چیخ ہوگی اور کہیں کلکاریاں ہوں گی

    کہیں پہ چیخ ہوگی اور کہیں کلکاریاں ہوں گی اگر حاکم کے آگے بھوک اور لاچاریاں ہوں گی اگر ہر دل میں چاہت ہو شرافت ہو صداقت ہو محبت کا چمن ہوگا خوشی کی کیاریاں ہوں گی کسی کو شوق یوں ہوتا نہیں غربت میں جینے کا یقیناً سامنے اس کے بڑی دشواریاں ہوں گی یہ ہولی عید کہتی ہے بھلا کب اپنے ...

    مزید پڑھیے

    ہنس دے تو کھلے کلیاں گلشن میں بہار آئے

    ہنس دے تو کھلے کلیاں گلشن میں بہار آئے وہ زلف جو لہرائیں موسم میں نکھار آئے مل جائے کوئی ساتھی ہر غم کو سنا ڈالیں بے چین مرا دل ہے پل بھر کو قرار آئے مدہوش ہوا دل کیوں بے چین ہے کیوں آنکھیں ہوں دور مے خانہ سے پھر کیوں اے خمار آئے کھل جائیں گی یہ کلیاں محبوب کے آمد سے جس راہ سے وہ ...

    مزید پڑھیے

    تمنا ہے سنور جانے سے پہلے

    تمنا ہے سنور جانے سے پہلے تجھے دیکھوں نکھر جانے سے پہلے کبھی مجھ پر بھی ہو نظر عنایت میری ہستی بکھر جانے سے پہلے تیرے پہلو میں ہی نکلے مرا دم یہی خواہش ہے مر جانے سے پہلے چلو ایک پیار کا پودھا لگائیں بہاروں کے گزر جانے سے پہلے گزرنا ہے مجھے ان کی گلی سے وضو کر لوں ادھر جانے سے ...

    مزید پڑھیے

    اپنی زلفوں کو دھو رہی ہے شب

    اپنی زلفوں کو دھو رہی ہے شب اور خوشبو نچو رہی ہے شب میرے خوابوں کی اوڑھ کر چادر میرے بستر پہ سو رہی ہے شب اب اندھیروں سے جنگ کی خاطر کچھ چراغوں کو بو رہی ہے شب صبح نو کے قریب آتے ہی اپنا استیو کھو رہی ہے شب دن کے صدموں کو سہ رہا ہے دن رات کا بوجھ ڈھو رہی ہے شب

    مزید پڑھیے

    در در پھرتے لوگوں کو در دے مولا

    در در پھرتے لوگوں کو در دے مولا بنجاروں کو بھی اپنا گھر دے مولا جو اوروں کی خوشیوں میں خوش ہوتے ہیں ان کا بھی گھر خوشیوں سے بھر دے مولا ظلم و ستم ہو ختم نہ ہو دہشت گردی امن و اماں کی یوں بارش کر دے مولا بھوکے پیاسے مفلس اور یتیم ہیں جو نظر عنایت ان پر بھی کر دے مولا جو کرتے ہیں ...

    مزید پڑھیے

    محنت کی جب خوشبو ٹپکے پرچھائیں مسکاتی ہے

    محنت کی جب خوشبو ٹپکے پرچھائیں مسکاتی ہے تھک کر ان کی بانہوں میں تب انگڑائی مسکاتی ہے ان کی خوشبو پا کر دل کی انگنائی مسکاتی ہے ان کو چھونے سے یادوں کی بینائی مسکاتی ہے جن کے کھلنے سے دنیا کا ہر گلشن آباد ہوا ان کلیوں کی خوشی سجا کر شہنائی مسکاتی ہے ان کی خوشبو سے خوشبو ہے گلشن ...

    مزید پڑھیے

    بہاریں کب لبوں کو کھولتی ہیں

    بہاریں کب لبوں کو کھولتی ہیں بڑی حسرت سے کلیاں دیکھتی ہیں بھلے خاموش ہیں یہ لب تمہارے مگر آنکھیں بہت کچھ بولتی ہیں امیر شہر کا قبضہ ہے لیکن غریبوں کی دیواریں ٹوٹتی ہیں سمندر کو کہاں خشکی کا ڈر ہے وہ ندیاں ہیں جو اکثر سوکھتی ہیں نہ جانے کب ہٹا دیں زلف اپنی انہیں اک ٹک یہ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2