جس طرح سے پھولوں کی ڈالیاں مہکتی ہیں
جس طرح سے پھولوں کی ڈالیاں مہکتی ہیں
میرے گھر کے آنگن میں بیٹیاں مہکتی ہیں
پھول سا بدن تیرا اس قدر معطر ہے
خواب میں بھی چھو لوں تو انگلیاں مہکتی ہیں
ماں نے جو کھلائی تھیں اپنے پیارے ہاتھوں سے
ذہن میں ابھی تک وہ روٹیاں مہکتی ہیں
عمر ساری گزری ہو جس کی حق پرستی میں
اس کی تو قیامت تک نیکیاں مہکتی ہیں
ہو گئی رضاؔ رخصت گھر سے بیٹیاں لیکن
اب تلک نگاہوں میں ڈولیاں مہکتی ہیں