محنت کی جب خوشبو ٹپکے پرچھائیں مسکاتی ہے
محنت کی جب خوشبو ٹپکے پرچھائیں مسکاتی ہے
تھک کر ان کی بانہوں میں تب انگڑائی مسکاتی ہے
ان کی خوشبو پا کر دل کی انگنائی مسکاتی ہے
ان کو چھونے سے یادوں کی بینائی مسکاتی ہے
جن کے کھلنے سے دنیا کا ہر گلشن آباد ہوا
ان کلیوں کی خوشی سجا کر شہنائی مسکاتی ہے
ان کی خوشبو سے خوشبو ہے گلشن کے سب پھولوں میں
ان کو چھو کر آنے والی پروائی مسکاتی ہے
یادیں گھائل سانسیں بوجھل جینا ہے دشوار مرا
میری حالت دیکھ کے اب تو تنہائی مسکاتی ہے