بہاریں کب لبوں کو کھولتی ہیں
بہاریں کب لبوں کو کھولتی ہیں
بڑی حسرت سے کلیاں دیکھتی ہیں
بھلے خاموش ہیں یہ لب تمہارے
مگر آنکھیں بہت کچھ بولتی ہیں
امیر شہر کا قبضہ ہے لیکن
غریبوں کی دیواریں ٹوٹتی ہیں
سمندر کو کہاں خشکی کا ڈر ہے
وہ ندیاں ہیں جو اکثر سوکھتی ہیں
نہ جانے کب ہٹا دیں زلف اپنی
انہیں اک ٹک یہ آنکھیں دیکھتی ہیں
رضاؔ ہے رب کا یہ احسان مجھ پر
جو خوشیاں میرے گھر میں کھیلتی ہیں