اپنی زلفوں کو دھو رہی ہے شب
اپنی زلفوں کو دھو رہی ہے شب
اور خوشبو نچو رہی ہے شب
میرے خوابوں کی اوڑھ کر چادر
میرے بستر پہ سو رہی ہے شب
اب اندھیروں سے جنگ کی خاطر
کچھ چراغوں کو بو رہی ہے شب
صبح نو کے قریب آتے ہی
اپنا استیو کھو رہی ہے شب
دن کے صدموں کو سہ رہا ہے دن
رات کا بوجھ ڈھو رہی ہے شب