Saleem Raza Rewa

سلیم رضا ریوا

سلیم رضا ریوا کی غزل

    جانے کیسے ہوں گے آنسو بہتے ہیں تو بہنے دو

    جانے کیسے ہوں گے آنسو بہتے ہیں تو بہنے دو بھولی بسری بات پرانی کہتے ہیں تو کہنے دو ہم بنجاروں کو نا کوئی باندھ سکا زنجیروں میں آج یہاں کل وہاں بھٹکتے رہتے ہیں تو رہنے دو مفلس کی تو مجبوری ہے سردی گرمی بارش کیا روٹی کی خاطر سارے غم سہتے ہیں تو سہنے دو اپنے سکھ سنگ میرے دکھ کو ...

    مزید پڑھیے

    خرابی کے نظارے اگ رہے ہیں

    خرابی کے نظارے اگ رہے ہیں منافع میں خسارے اگ رہے ہیں ترے ہونٹوں پہ کلیاں کھل رہی ہیں مرے آنکھوں میں تارے اگ رہے ہیں فلک چومے ہے دھرتی کے لبوں کو کہ دھرتی سے کنارے اگ رہے ہیں تمہارے عشق میں جلنے کی خاطر بدن میں کچھ شرارے اگ رہے ہیں فلک کے چاند کو چھونے کی ضد میں رضاؔ جی پر ہمارے ...

    مزید پڑھیے

    ہم جیسے پاگل بہتیرے پھرتے ہیں

    ہم جیسے پاگل بہتیرے پھرتے ہیں آپ بھلا کیوں بال بکھیرے پھرتے ہیں کاندھوں پر زلفیں ایسے بل کھاتی ہیں جیسے لے کر سانپ سپیرے پھرتے ہیں چاند ستارے کیوں مجھ سے پنگا لے کر میرے پیچھے ڈیرے ڈیرے پھرتے ہیں خوشیاں مجھ کو ڈھونڈ رہی ہیں گلیوں میں پر غم ہیں کی گھیرے گھیرے پھرتے ہیں نہ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2