انائے جذب و جنوں اوج سے کمال گری

انائے جذب و جنوں اوج سے کمال گری
مجھے جو ہوش ملا پاؤں سے دھمال گری


یقین ہونے لگا ہر گزرتے دن کے ساتھ
شکستہ جسم کی دیوار اب کے سال گری


میں اس کی آنکھ کے زیر و زبر سمجھتا ہوں
پلک پہ کیوں وہ پلک لمحۂ سوال گری


ردائے شرم لئے آنکھ میں میں آگے بڑھا
ہوا میں اڑ کے جب اس کے بدن سے شال گری


عروج وقت سے آگے کا کوئی لمحہ تھا
فگارؔ بانہوں میں جب وہ پری جمال گری