دائمی ہجرتوں کے بیٹے ہیں

دائمی ہجرتوں کے بیٹے ہیں
راستے جو گھروں سے نکلے ہیں


یہ زمیں مر رہی ہے اندر سے
تتلیاں پھول پیڑ روتے ہیں


بیٹھ کر سوچتے ہیں ذلت میں
ہم وہی آسمان والے ہیں


موج در موج خون اچھلے گا
ان ہی دریاؤں سے جو اجلے ہیں


بٹ رہے ہیں طعام ہر جانب
پھر بھی ہم لوگ کتنے بھوکے ہیں


تم کو معلوم ہی نہیں ہم پر
روز و شب جو عذاب اترے ہیں


ہر زمانے میں میرے جیسے فگارؔ
صرف دو چار لوگ ہوتے ہیں