مسلسل آگ میں اک آگ سی لگی ہوئی ہے
مسلسل آگ میں اک آگ سی لگی ہوئی ہے
یہ میں جو راکھ بنی ہے تو روشنی ہوئی ہے
رکا نہیں کسی منزل پہ کاروان سفر
ازل سے خون میں تحریک سی چلی ہوئی ہے
خمیر تخم میں رکھی ہوئی حسیں خواہش
گلاب بن کے ہر اک شاخ پر کھلی ہوئی ہے
پڑا ہوں جسم کے سانچے میں ہجر اپنا لیے
مجھے یہ عمر کہیں ڈھونڈنے گئی ہوئی ہے
فصیل و در مجھے حیرت سے تکتے رہتے ہیں
کسی دریچے سے کیا میری دوستی ہوئی ہے
یہ سرخ و تازہ گلوں سے بھری ہوئی ٹہنی
مرے بدن کا لہو پی کے ہی بڑی ہوئی ہے