کسی کی نبض پہ اس طرح انگلیاں رکھ دے
کسی کی نبض پہ اس طرح انگلیاں رکھ دے
کہ تیرے سامنے وہ دل کی داستاں رکھ دے
میں زخم زخم بدن کو چھپاؤں کس کس سے
خدا کے واسطے تو ہاتھ سے کماں رکھ دے
تو ایک بار مجھے دھرنے دے زمیں پہ قدم
پھر اس کے بعد مرے سر پہ آسماں رکھ دے
جو دیکھنا ہے مری روح کی توانائی
تو میرے جسم کو شعلوں کے درمیاں رکھ دے
اٹھا سکے نہ اگر کوئی بھی ضمیر کا بوجھ
مرے ہی دوش پہ یہ بار دو جہاں رکھ دے
خدا کی دین کی کیا بات ہے جو وہ چاہے
دہان سنگ میں بھی پھول کی زباں رکھ دے