زندگی نے بخشا ہے زہر آگہی مجھ کو
زندگی نے بخشا ہے زہر آگہی مجھ کو
کر دیا گیا اندھا دے کے روشنی مجھ کو
خواب کا ہر اک شیشہ سو جگہ سے ٹوٹا ہے
کس قدر پڑی مہنگی آئینہ گری مجھ کو
دوسروں سے نفرت کا خواب تک نہ دیکھوں گا
دوستو خود اپنے سے عشق ہی سہی مجھ کو
میں جہاں بھی ہوں لیکن مطمئن تو بیٹھا ہوں
تیرے رشد سے بہتر میری گمرہی مجھ کو
اس طرح تو بت بن کر میرے پاس مت تو بیٹھ
خار بن کے چبھتی ہے تیری خامشی مجھ کو
یہ مرا مقدر ہے یا تری شرارت ہے
کیوں لہو رلاتی ہے تیری دوستی مجھ کو
بس تجھے ہی پانے کو وقف تھی مری پرواز
لے اڑا خلاؤں میں ذوق بندگی مجھ کو
میں کہ دن کا بیٹا ہوں روشنی اگلتا ہوں
کیا بھلا ڈرائے گی شب کی تیرگی مجھ کو
خواب کے جزیروں پر گیت کس طرح لکھوں
ہر قدم پہ ڈستی ہے جب کہ زندگی مجھ کو