سلیم بیتاب کی غزل

    صحراؤں میں جا پہنچی ہے شہروں سے نکل کر

    صحراؤں میں جا پہنچی ہے شہروں سے نکل کر الفاظ کی خوشبو مرے ہونٹوں سے نکل کر سینے کو مرے کر گیا اک آن میں روشن اک نور کا کوندا تری آنکھوں سے نکل کر میں قطرۂ شبنم تھا مگر آج ہوں سورج آ بیٹھا ہوں میں صدیوں میں لمحوں سے نکل کر ہو جائیں گے بستی کے در و بام منور سورج ابھی چمکے گا ...

    مزید پڑھیے

    جی میں آتا ہے کہ اک روز یہ منظر دیکھیں

    جی میں آتا ہے کہ اک روز یہ منظر دیکھیں سامنے تجھ کو بٹھائیں تجھے شب بھر دیکھیں بند ہے شام سے ہی شہر کا ہر دروازہ آ شب ہجر کہ اب اور کوئی گھر دیکھیں ایسے ہم دیکھتے ہیں دل کے اجڑنے کا سماں جس طرح داسیاں جلتا ہوا مندر دیکھیں میرے جنگل میں ہی منگل کا سماں ہے پیدا شہر کے لوگ مرے ...

    مزید پڑھیے

    آنکھ کے کنج میں اک دشت تمنا لے کر

    آنکھ کے کنج میں اک دشت تمنا لے کر اجنبی دیس کو نکلے دل تنہا لے کر دیکھ تو کھول کے تاریک مکاں کی کھڑکی ہم ترے شہر میں آئے ہیں اجالا لے کر ہم بھی پہنچے تھے گلستاں میں سکوں کی خاطر آ گئے ذہن میں تپتا ہوا صحرا لے کر اب نگاہوں کی جراحت کو لیے سوچتے ہیں کیوں گئے بزم میں ہم ذوق تماشا ...

    مزید پڑھیے

    پھر سرخ پھول شہر کے پیڑوں میں آ گئے

    پھر سرخ پھول شہر کے پیڑوں میں آ گئے روحوں میں جتنے زخم تھے چہروں میں آ گئے ہر اک دریچہ پھول سے چہروں سے بھر گیا اب تو چمن بھی شہر کی گلیوں میں آ گئے دل میں ترے خلوص کے دریا تھے گر رواں شعلے کہاں سے پھر تری آنکھوں میں آ گئے اب دیکھئے گا کس طرح اڑتی ہیں کرچیاں پتھر سے لوگ آئنہ ...

    مزید پڑھیے

    کل تلک قانع رہا جو گردش تقدیر پر

    کل تلک قانع رہا جو گردش تقدیر پر مستعد ہے آج وہ آفاق کی تسخیر پر شور و غل میں شہر کے اس کی صدا بھی کھو گئی ناز تھا جس کو کہ اپنے نطق کی تاثیر پر جو بھری محفل کے دل میں روشنی پھیلا گئی وہ خفا ہے آج تک میری اسی تقریر پر اور جب وہ لے سکا مجھ سے نہ کوئی انتقام ڈال دی اک خاک کی مٹھی مری ...

    مزید پڑھیے

    خوشبو مرے بدن میں رچی ہے خلاؤں کی

    خوشبو مرے بدن میں رچی ہے خلاؤں کی میں سیر کر رہا ہوں ابھی تک فضاؤں کی مت روک اپنے لب پہ نظر کی حقیقتیں تیری ہر اک صدا ہے امانت ہواؤں کی ہے کون جو کرے گا صداقت سے مول تول قیمت طلب کروں بھی تو کس سے وفاؤں کی اٹھی ہیں اس طرح سے حوادث کی آندھیاں مٹی میں تاب مل گئی رنگیں قباؤں ...

    مزید پڑھیے

    خود اپنے عکس کو حیرت سے دیکھتا ہوں میں

    خود اپنے عکس کو حیرت سے دیکھتا ہوں میں کنار آب بڑی دیر سے کھڑا ہوں میں سوانگ بھرتا پھروں کب تلک محبت کے میں کیوں نہ صاف ہی کہہ دوں کہ بے وفا ہوں میں سنا نہ قصے مجھے دامنوں کی عصمت کے کہ تیرے شہر کے لوگوں کو جانتا ہوں میں وہ کون ہے جو مرے ساتھ ساتھ چلتا ہے یہ دیکھنے کو کئی بار رک ...

    مزید پڑھیے

    اک آن میں ہی یوں ترا پیکر بدل گیا

    اک آن میں ہی یوں ترا پیکر بدل گیا جیسے اسٹیج پر کوئی منظر بدل گیا سنتا نہیں ہے کوئی بھی میری پکار کو دستک بدل گئی کہ مرا گھر بدل گیا اک آن میں ہی سب در و دیوار دھل گئے بارش سے شہر بھر کا مقدر بدل گیا خلوت میں جس کے لب پہ تھے میری وفا کے گیت وہ شخص میرے سامنے آ کر بدل گیا بیتابؔ اب ...

    مزید پڑھیے

    پھر ترے قول و قسم یاد آئے

    پھر ترے قول و قسم یاد آئے تری چاہت کے ستم یاد آئے کس قدر چوٹ لگی ہے دل پر جب بھی مر مر کے صنم یاد آئے یاد جب آیا ترا نام مجھے کتنے بے نام سے غم یاد آئے جانے وہ کیسا سفر تھا میرا جس کا اک ایک قدم یاد آئے پھر مرا ذہن ہے الجھا الجھا پھر تری زلف کے خم یاد آئے اور بھی یاد کی لو تیز ...

    مزید پڑھیے

    یوں سنہری دھوپ بکھری ہے رخ کہسار پر

    یوں سنہری دھوپ بکھری ہے رخ کہسار پر جس طرح غازہ چمکتا ہے ترے رخسار پر اڑتے لمحوں کو پکڑنے کی تمنا ہے عبث یہ پرندے تو کبھی ٹکتے نہیں اشجار پر وہ مرے چہرے پہ کیا ماضی کی تحریریں پڑھے اس کی نظریں تو جمی ہیں آج کے اخبار پر آج تو اک حادثہ اس کو بھی ننگا کر گیا لاکھ پردے تھے پڑے جس شخص ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 3