شب تنہائی

آتش عشق سے میری شب تنہائی میں
سائے نے بھی نہ دیا ساتھ
مری جاں کا وہ ناراض رہا
میں نے جب آئنہ دیکھا تو پشیمان ہوا
اپنا چہرہ نہ نظر آیا مجھے
آئنے میں کوئی ویرانہ تھا
پیالہ گردش میں تھا
مے اس میں نہیں تھی ہرگز
میں بلاتا رہا ساقی کو
پہ وہ نکلا نہیں مے خانے سے
خس و خاشاک ہوئی میری طلب
صورت دود ہوا میرا جنوں
آئنہ توڑ دیا میں نے تبھی
آگ اس میں سے اٹھی ایسی
کہ میں جلنے لگا
جل کے میں راکھ ہوا
مے لئے تب وہی ساقی آیا
جس نے فریاد کو میری نہ سنا تھا پہلے
اب اسی نے چھیڑی
راکھ میری کہ بنے پیالہ اس سے
اور اس راکھ کے پیالے کو وہ مے سے بھر دے
آتش عشق سے میری شب تنہائی میں
سائے نے بھی نہ دیا ساتھ
وہ ناراض رہا