سایۂ گریزاں

دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت
درد سے بھر گیا بہت
روئے ہیں ہم ہزار بار
در پہ تمہارے بیٹھ کے
چلمن اٹھا کے ایک دن
دیکھا نہیں جناب نے
دیر نہیں حرم نہیں در نہیں آستاں نہیں
بیٹھے ہیں رہ گزر پہ ہم
شاید جناب کا گزر اس رہ گزر سے ہو کبھی
ہم دیکھ لیں گے گر تمہیں
آنکھوں میں دید آئے گی
ہم کو نوید امن کی تھوڑی سی بھیک چاہیے
تھوڑا سا تم کو دیکھ کے
ہلچلیں مچی ہیں جو سینۂ سوز میں بہت
تھوڑا سا چین پائیں گی
وا حسرتا کہ یار نے کھینچا ستم سے اپنا ہاتھ
ہم کو حریص لذت آزار سوچ کے
اور اس فریب میں وہ خود
اک رات خواب میں آ گئے
بوسہ دیا شراب بھی دی
آنکھوں کو چوم چوم کر ہم سے کہا
کہ اب تو وحشت دل و دماغ
آتش میں جا کے پھینک دے
اب بھی سنبھل وگرنہ پھر
اک ایسی شب بھی آئے گی
سایۂ گریزاں ہو کے جب
تجھ کو وہ چھوڑ جائے گا