کاو کاو سخت جانی
کاو کاو سخت جانی
اور ایسی تنہائی
جذبۂ بے اختیاری
اور ایسی تنہائی
آتش خاموش میں جلتا رہا
اور کوئی وصل کو آیا نہیں
وحشت ایسی تھی
کہ صحرا بھی جلا وہ بھی جلا
تھی وہ داغوں کی بہار
تھا چراغاں رات میں
اور قیس تھا تصویر میں
پھر بھی عریاں ہی تھا وہ
اس نے کبھی کپڑے نہ پہنے
خوشبو بھرے خوشیاں بھرے
بوئے گل میں اس کا نالہ تھا نہاں
اور محفل کے چراغوں میں تھا
اس کے سچے عشق کا سچا دھواں
وہ تھا تنہائی میں
اور تنہائی بھی ایسی دردناک
قیس اپنے سوز تنہائی میں ہی جل گیا
بے محابا جل گیا
کاو کاو سخت جانی
اور ایسی تنہائی نہ پوچھ