نادیدہ فراق

باغ میں اضطراب ایسا ہے
جیسے گہر میں کرتا ہے قطرہ اضطراب
یہ خزاں کی ہی تو بخشش ہے
جو آتی ہے بہار
کلفتیں اور اضطراب اور ان کے ساتھ ساتھ
وصل خزاں ہی زندگی میں
است ہے پیوست ہے
یہ اندھیری شب ہے کیسی
دور تک جلتی نہیں مشعل کوئی
کوئی چراغ
دل ہی جلتا ہے مرا
اور اس کی روشنی میں
بت کدہ کے در کو کھولا
بت وہاں تھا ہی نہیں
بت کہاں گم ہو گیا
فرش سے ساتوں عرش تک
میں نے کیا اس کو تلاش
لیکن ہر اک موڑ پہ تھا
سوختن کا ایک باب
اضطراب ایسا تھا
اس میں کلفتیں تھیں سو بھری
اور خزاں بھی
ساتھ ان کا دے رہی تھی سر پھری
واں کرم کو عذر بارش تھا
عناں گیر خرام
اور گریے سے مرے تکیے میں
اک سیلاب تھا
باغ میں اضطراب ایسا ہے
جیسے گہر میں کرتا ہے قطرہ اضطراب