تعمیر نو
گھنے اندھیروں سے پھوٹا سپیدۂ سحری ضمیر خاک میں جاگا مذاق دیدہ وری غموں سے دور مسرت کی شاہراہوں میں حیات ڈھونڈ رہی ہے نشان استقبال تہوں میں ڈوب کے ابھری ہے فکر انسانی نکل رہا ہے سیاہی سے آفتاب کمال لہو کے چھینٹوں سے بدلی ہے قسمت آدم زمانہ ناپ رہا ہے جنوں کے پیمانے خرد کی مے سے ...