Sahba lakhnavi

صہبا لکھنوی

صہبا لکھنوی کی نظم

    تعمیر نو

    گھنے اندھیروں سے پھوٹا سپیدۂ سحری ضمیر خاک میں جاگا مذاق دیدہ وری غموں سے دور مسرت کی شاہراہوں میں حیات ڈھونڈ رہی ہے نشان استقبال تہوں میں ڈوب کے ابھری ہے فکر انسانی نکل رہا ہے سیاہی سے آفتاب کمال لہو کے چھینٹوں سے بدلی ہے قسمت آدم زمانہ ناپ رہا ہے جنوں کے پیمانے خرد کی مے سے ...

    مزید پڑھیے

    روشنی کے لیے

    پھول کھلتے رہے زخم رستے رہے چاند ہنستا رہا دل سلگتا رہا ساز بجتے رہے شمع جلتی رہی زندگی دوش غم پر سسکتی رہی پھول سے خار تک قید سے دار تک زینت رنگ و بو آدمی کا لہو شام سے صبح تک روشنی کے لیے جھلملاتے رہے روشنی کے لئے

    مزید پڑھیے

    نذر سودا

    کہنے کو عام رسم شکایات ہو گئی لب تک نہ آئی بات مگر بات ہو گئی ہنس ہنس کے پی لیے غم دوراں کے تلخ جام یوں سازگار گردش حالات ہو گئی زنداں کی شب نظر کے اجالے خیال دوست یکجا ہوئے تو پرسش حالات ہو گئی محویت حکایت دوراں نہ پوچھیے کب دن ہوا خبر نہیں کب رات ہو گئی جو آسماں نشیں ہیں انہیں اس ...

    مزید پڑھیے

    شہر خوباں شہر مقتل

    مرے اس شہر کی رونق بسیں رکشا ٹرامیں موٹریں اور آدمی سیلاب کے مانند سڑکیں ہمہماتی شور ہنگامہ تگ و دو وقت کی گردش میں صبح و شام کا معمول ہے مرے اس شہر کی رونق اسکول نا آشنا لمحے ادھوری خواہش خوابوں کے ویرانے اندھیرے شب کے افسانے مرے اس شہر کی رونق حسیں بازار رونق دکانیں دل ربا ...

    مزید پڑھیے

    خواب کے سناٹے

    پھر وہی عمر گریزاں کا ملال پھر وہی کشمکش ماضی و حال انگنت خواب لڑکپن کے جوانی کے سلگتے ہوئے جذبوں کے مہ و سال کے خواب ایک اک لمحہ بکھرتا سا سمٹتا سا خد و خال کے سو رنگ لیے قہقہے مجلس احباب شگفتہ چہرے ایک آسودہ تمنا کا دیار جیسے نوخیز شگوفوں کی بہار اور اب خواب کے سناٹے میں عمر کی ...

    مزید پڑھیے

    دیوار

    یہ اندھیرے یہ اندھیروں میں گرجتے ہوئے طوفان کا شور میرا ماضی مری خوں گشتہ امیدوں کا مزار یہ روایات کہن اور غم ایام کے رستے ہوئے زخم جیسے دیوار گزر گاہ تمدن کے شگاف وقت کے پھیلتے بڑھتے ہوئے سایوں کو لیے آج بھی ظلمت دوراں ہے شریک غم زیست آج اور آج کے خوابوں کا سنہری گنبد اپنے ماضی ...

    مزید پڑھیے