Sahba lakhnavi

صہبا لکھنوی

صہبا لکھنوی کے تمام مواد

4 غزل (Ghazal)

    کتنے دیپ بجھتے ہیں کتنے دیپ جلتے ہیں

    کتنے دیپ بجھتے ہیں کتنے دیپ جلتے ہیں عزم زندگی لے کر پھر بھی لوگ چلتے ہیں کارواں کے چلنے سے کارواں کے رکنے تک منزلیں نہیں یارو راستے بدلتے ہیں موج موج طوفاں ہے موج موج ساحل ہے کتنے ڈوب جاتے ہیں کتنے بچ نکلتے ہیں مہر‌‌ و ماہ و انجم بھی اب اسیر گیتی ہیں فکر نو کی عظمت سے روز و شب ...

    مزید پڑھیے

    بے حرف و نوا سخن تو دیکھو

    بے حرف و نوا سخن تو دیکھو خوابوں کا ادھوراپن تو دیکھو لفظوں میں سمٹ سکا نہ پیکر انسان کا عجز فن تو دیکھو چہرے کے نقوش بولتے ہیں تصویر کا بانکپن تو دیکھو دامن کو بہار چھو گئی ہے جلتا ہوا پیرہن تو دیکھو جنگل کا سکوت کہہ رہا ہے شہروں میں بسی گھٹن تو دیکھو صدیوں سے لہو میں تر ہے ...

    مزید پڑھیے

    ساز ہستی چھیڑ کر یہ کون پنہاں ہو گیا (ردیف .. ے)

    ساز ہستی چھیڑ کر یہ کون پنہاں ہو گیا آج تک دنیائے دل فردوس زار نغمہ ہے دے رہی ہے جنبش لب دعوت لطف و کرم ایک ہلکا سا تبسم پردہ دار نغمہ ہے لڑ گئی تھیں رات نظریں چشم ساقی سے مری دیکھتا ہوں جس کو سیراب خمار نغمہ ہے خم کہیں ساغر کہیں مطرب کہیں صہباؔ کہیں کون ہے جو مائل بے پردہ دار ...

    مزید پڑھیے

    تیرہ بختی نہ گئی سوختہ سامانوں کی

    تیرہ بختی نہ گئی سوختہ سامانوں کی خاک روشن نہ ہوئی شمع سے پروانوں کی چاہتے ہیں نہ رہے ہوش میں اپنے کوئی کتنی معصوم ضدیں ہیں ترے دیوانوں کی شیشۂ دل سے کوئی برق تڑپ کر نکلی جب پڑی چوٹ چھلکتے ہوئے پیمانوں کی نگہ مست سے ٹکراتے رہے شیشۂ دل خوب چلتی رہی دیوانوں سے دیوانوں کی مست ...

    مزید پڑھیے

6 نظم (Nazm)

    تعمیر نو

    گھنے اندھیروں سے پھوٹا سپیدۂ سحری ضمیر خاک میں جاگا مذاق دیدہ وری غموں سے دور مسرت کی شاہراہوں میں حیات ڈھونڈ رہی ہے نشان استقبال تہوں میں ڈوب کے ابھری ہے فکر انسانی نکل رہا ہے سیاہی سے آفتاب کمال لہو کے چھینٹوں سے بدلی ہے قسمت آدم زمانہ ناپ رہا ہے جنوں کے پیمانے خرد کی مے سے ...

    مزید پڑھیے

    روشنی کے لیے

    پھول کھلتے رہے زخم رستے رہے چاند ہنستا رہا دل سلگتا رہا ساز بجتے رہے شمع جلتی رہی زندگی دوش غم پر سسکتی رہی پھول سے خار تک قید سے دار تک زینت رنگ و بو آدمی کا لہو شام سے صبح تک روشنی کے لیے جھلملاتے رہے روشنی کے لئے

    مزید پڑھیے

    نذر سودا

    کہنے کو عام رسم شکایات ہو گئی لب تک نہ آئی بات مگر بات ہو گئی ہنس ہنس کے پی لیے غم دوراں کے تلخ جام یوں سازگار گردش حالات ہو گئی زنداں کی شب نظر کے اجالے خیال دوست یکجا ہوئے تو پرسش حالات ہو گئی محویت حکایت دوراں نہ پوچھیے کب دن ہوا خبر نہیں کب رات ہو گئی جو آسماں نشیں ہیں انہیں اس ...

    مزید پڑھیے

    شہر خوباں شہر مقتل

    مرے اس شہر کی رونق بسیں رکشا ٹرامیں موٹریں اور آدمی سیلاب کے مانند سڑکیں ہمہماتی شور ہنگامہ تگ و دو وقت کی گردش میں صبح و شام کا معمول ہے مرے اس شہر کی رونق اسکول نا آشنا لمحے ادھوری خواہش خوابوں کے ویرانے اندھیرے شب کے افسانے مرے اس شہر کی رونق حسیں بازار رونق دکانیں دل ربا ...

    مزید پڑھیے

    خواب کے سناٹے

    پھر وہی عمر گریزاں کا ملال پھر وہی کشمکش ماضی و حال انگنت خواب لڑکپن کے جوانی کے سلگتے ہوئے جذبوں کے مہ و سال کے خواب ایک اک لمحہ بکھرتا سا سمٹتا سا خد و خال کے سو رنگ لیے قہقہے مجلس احباب شگفتہ چہرے ایک آسودہ تمنا کا دیار جیسے نوخیز شگوفوں کی بہار اور اب خواب کے سناٹے میں عمر کی ...

    مزید پڑھیے

تمام