نذر سودا
کہنے کو عام رسم شکایات ہو گئی
لب تک نہ آئی بات مگر بات ہو گئی
ہنس ہنس کے پی لیے غم دوراں کے تلخ جام
یوں سازگار گردش حالات ہو گئی
زنداں کی شب نظر کے اجالے خیال دوست
یکجا ہوئے تو پرسش حالات ہو گئی
محویت حکایت دوراں نہ پوچھیے
کب دن ہوا خبر نہیں کب رات ہو گئی
جو آسماں نشیں ہیں انہیں اس کا علم ہے
جب بھی زمیں پر آئے انہیں مات ہو گئی
گلشن قفس بہار گریباں جنوں خرد
مربوط ان سے بزم خرابات ہو گئی
صہباؔ اثر نگاہ کی اللہ رے کشمکش
نیندوں میں کیف و کم کی شروعات ہو گئی