خواب کے سناٹے
پھر وہی عمر گریزاں کا ملال
پھر وہی کشمکش ماضی و حال
انگنت خواب
لڑکپن کے جوانی کے سلگتے ہوئے جذبوں کے مہ و سال کے خواب
ایک اک لمحہ
بکھرتا سا سمٹتا سا
خد و خال کے سو رنگ لیے
قہقہے مجلس احباب شگفتہ چہرے
ایک آسودہ تمنا کا دیار
جیسے نوخیز شگوفوں کی بہار
اور اب خواب کے سناٹے میں
عمر کی نصف صدی پوچھ رہی ہے مجھ سے
تم نے کیا کھویا ہے کیا پایا ہے
وقت کی دھوپ میں تپتے ہوئے صحرا کا خیال
ایک مرتی ہوئی تہذیب کا نادیدہ جمال
غم انساں غم دوراں غم جاناں کا سوال
یاد ہی عمر گریزاں کا ملال