تعمیر نو
گھنے اندھیروں سے پھوٹا سپیدۂ سحری
ضمیر خاک میں جاگا مذاق دیدہ وری
غموں سے دور مسرت کی شاہراہوں میں
حیات ڈھونڈ رہی ہے نشان استقبال
تہوں میں ڈوب کے ابھری ہے فکر انسانی
نکل رہا ہے سیاہی سے آفتاب کمال
لہو کے چھینٹوں سے بدلی ہے قسمت آدم
زمانہ ناپ رہا ہے جنوں کے پیمانے
خرد کی مے سے کہیں سیر ہو سکی ہے طلب
سرور عقل کے وا ہوں ہزار مے خانے
یہ زندگی ہے بہر حال زندگی کی طلب
طلب نہ ہو تو جواں سال حوصلے نہ رہیں
حیات و موت نہیں جز تصادم ناگاہ
طلب نہ ہو تو جنوں کار ولولے نہ رہیں
فضا میں کیف کلی پر شباب گل پہ نکھار
ابھی تو جشن بہاراں کو عام کرنا ہے
ابھی فروغ مہ و مہر کی ضرورت ہے
نگار شب کی ستاروں سے مانگ بھرتا ہے
یقین عزم و عمل اشتراک فکر و نظر
انہیں سے درس تپش لے رہی ہے روح بشر
حیات لے کے چلو کائنات لے کے چلو
چلو تو سارے زمانے کو ساتھ لے کے چلو