دیوار
یہ اندھیرے
یہ اندھیروں میں گرجتے ہوئے طوفان کا شور
میرا ماضی
مری خوں گشتہ امیدوں کا مزار
یہ روایات کہن
اور غم ایام کے رستے ہوئے زخم
جیسے دیوار گزر گاہ تمدن کے شگاف
وقت کے پھیلتے بڑھتے ہوئے سایوں کو لیے
آج بھی ظلمت دوراں ہے شریک غم زیست
آج
اور آج کے خوابوں کا سنہری گنبد
اپنے ماضی کی روایات پہ ہے نوحہ کناں
جس کے اطراف میں صدیوں کی طرح
آج بھی سیکڑوں بھوکوں کی قطاریں ہیں کھڑی
کارخانوں کے دفاتر کے ملوں کے آگے
اور کھلیانوں کے بازاروں کے چوراہوں کے
ارد گرد ایک قطار
ایک لمبی سی قطار
لوگ کہتے ہیں یہ بھوکے ہیں یہ ننگے ہیں غریب
کون کہتا ہے یہ ننگے ہیں یہ بھوکے ہیں غریب
چیخ کر دیتے ہیں ایوان حکومت یہ جواب
یہ اندھیرے
یہ اندھیروں کی کمیں گہ کے لٹیروں کا فریب
سامراجوں کا فریب
آمریت کا فروغ
آج لو دے کے بھڑک اٹھے ہیں رستے ہوئے زخم
ان اندھیروں سے کہو
ان اندھیروں کی کمیں گہ کے لٹیروں سے کہو
دور ہو جائیں نگاہوں سے ہمیشہ کے لیے
کل جو دیوار تھی ماضی کے اندھیروں کی امیں
آج کچلے ہوئے انسان گرائیں گے اسے
سرخیٔ خوں کی طرح سرخ ہے فردا کی بہار
روشنی لے کے بڑھو اور بڑھو اور بڑھو