Sahba lakhnavi

صہبا لکھنوی

صہبا لکھنوی کی غزل

    کتنے دیپ بجھتے ہیں کتنے دیپ جلتے ہیں

    کتنے دیپ بجھتے ہیں کتنے دیپ جلتے ہیں عزم زندگی لے کر پھر بھی لوگ چلتے ہیں کارواں کے چلنے سے کارواں کے رکنے تک منزلیں نہیں یارو راستے بدلتے ہیں موج موج طوفاں ہے موج موج ساحل ہے کتنے ڈوب جاتے ہیں کتنے بچ نکلتے ہیں مہر‌‌ و ماہ و انجم بھی اب اسیر گیتی ہیں فکر نو کی عظمت سے روز و شب ...

    مزید پڑھیے

    بے حرف و نوا سخن تو دیکھو

    بے حرف و نوا سخن تو دیکھو خوابوں کا ادھوراپن تو دیکھو لفظوں میں سمٹ سکا نہ پیکر انسان کا عجز فن تو دیکھو چہرے کے نقوش بولتے ہیں تصویر کا بانکپن تو دیکھو دامن کو بہار چھو گئی ہے جلتا ہوا پیرہن تو دیکھو جنگل کا سکوت کہہ رہا ہے شہروں میں بسی گھٹن تو دیکھو صدیوں سے لہو میں تر ہے ...

    مزید پڑھیے

    ساز ہستی چھیڑ کر یہ کون پنہاں ہو گیا (ردیف .. ے)

    ساز ہستی چھیڑ کر یہ کون پنہاں ہو گیا آج تک دنیائے دل فردوس زار نغمہ ہے دے رہی ہے جنبش لب دعوت لطف و کرم ایک ہلکا سا تبسم پردہ دار نغمہ ہے لڑ گئی تھیں رات نظریں چشم ساقی سے مری دیکھتا ہوں جس کو سیراب خمار نغمہ ہے خم کہیں ساغر کہیں مطرب کہیں صہباؔ کہیں کون ہے جو مائل بے پردہ دار ...

    مزید پڑھیے

    تیرہ بختی نہ گئی سوختہ سامانوں کی

    تیرہ بختی نہ گئی سوختہ سامانوں کی خاک روشن نہ ہوئی شمع سے پروانوں کی چاہتے ہیں نہ رہے ہوش میں اپنے کوئی کتنی معصوم ضدیں ہیں ترے دیوانوں کی شیشۂ دل سے کوئی برق تڑپ کر نکلی جب پڑی چوٹ چھلکتے ہوئے پیمانوں کی نگہ مست سے ٹکراتے رہے شیشۂ دل خوب چلتی رہی دیوانوں سے دیوانوں کی مست ...

    مزید پڑھیے