Sahab Qazalbash

سحاب قزلباش

  • 1944 - 2004

سحاب قزلباش کی غزل

    بڑھے چلو کہ تھکن تو نشے کی محفل ہے

    بڑھے چلو کہ تھکن تو نشے کی محفل ہے ابھی تو دور بہت دور اپنی منزل ہے یہ بے قرار تبسم ترے لبوں کا فسوں یہی تو چاک گریباں کی پہلی منزل ہے کسی کا راز تو پھر بھی پرائی بات ہوئی خود اپنے دل کو سمجھنا بھی سخت مشکل ہے کسی نے چاند پہ لہرا دیا ہے پرچم وقت کوئی ہماری طرح سہل جس کو مشکل ...

    مزید پڑھیے

    حقارت سے نہ دیکھو دل کو جام جم بھی کہتے ہیں

    حقارت سے نہ دیکھو دل کو جام جم بھی کہتے ہیں اسی خاک تپاں کو فاتح عالم بھی کہتے ہیں یہ دل کی داستان مضطرب ہے جس کو دنیا میں کہیں آنسو کہیں موتی کہیں شبنم بھی کہتے ہیں کبھی کے اک تبسم کو سجا رکھا ہے ہونٹوں پر بہت سے تو اسے پروردۂ ماتم بھی کہتے ہیں مسرت کے پجاری تجھ کو یہ عشرت ...

    مزید پڑھیے

    جو بات منہ سے نکالیں تو جرم ہے اپنا

    جو بات منہ سے نکالیں تو جرم ہے اپنا لہو کو راگ بنا لیں تو جرم ہے اپنا حیا سے نیچی نگاہوں کو بند رکھنا ہے نظر کبھی جو اٹھا لیں تو جرم ہے اپنا لبوں پہ مہر ہو دل لاکھ ٹکڑے ٹکڑے ہو زباں سے حرف نکالیں تو جرم ہے اپنا یہ قید و بند یہ پابندیاں زمانے کی جو اس سے رخ کو پھرا لیں تو جرم ہے ...

    مزید پڑھیے

    لے کے یادوں کے آج نذرانے

    لے کے یادوں کے آج نذرانے اے وطن آئے تیرے دیوانے کوئی گلشن پرست کیا جانے پھول میں کس قدر ہیں ویرانے ہم کو جو کچھ دیا ہے دنیا نے ہم سمجھتے ہیں یا خدا جانے دیر و کعبہ میں جی نہیں لگتا دل سلامت ہزار ویرانے جن کو بے اعتبار سمجھا ہے کام آئیں گے یہ ہی دیوانے

    مزید پڑھیے

    محبت میں سکوں محرومیوں کے بعد آتا ہے

    محبت میں سکوں محرومیوں کے بعد آتا ہے کہ جب ہر آسرا مٹ جائے تب دل چین پاتا ہے خود اپنا ہی لہو آواز کو رنگیں بناتا ہے کچل جاتا ہے جب دل تب کہیں نغمہ سناتا ہے یہ کیا جبر مشیت ہے یہ کیا جبر صداقت ہے کہ جس کو ہم بھلانا چاہتے ہیں یاد آتا ہے یہ کیا ضد ہے کہ دنیا بھی رکھو اور جی نہ میلا ...

    مزید پڑھیے

    ہزار باتیں ہیں دل میں ابھی سنانے کو

    ہزار باتیں ہیں دل میں ابھی سنانے کو مگر زباں نہیں ملتی ہمیں بتانے کو وہ آنکھیں آج ستارے تراشتی دیکھیں جنہوں نے رنگ تبسم دیا زمانے کو ہم اہل ظرف ابھی تک ہیں ایک جنس لطیف جنہیں کچل دیا دنیا نے آزمانے کو ہمارے پھول ہمارا چمن ہماری بہار ہمیں کو جا نہیں ملتی ہے آشیانے کو سحابؔ ...

    مزید پڑھیے

    غموں کے زخم اٹھاتے رہے خوشی کے لیے

    غموں کے زخم اٹھاتے رہے خوشی کے لیے ترس گئے ہیں محبت کی زندگی کے لیے کلی تبسم بے ساختہ سے پھول بنی یہ لمحہ کافی ہے اب پوری زندگی کے لیے غروب مہر پہ کس نے لہو چڑھایا ہے یہ کس نے خون جلایا ہے روشنی کے لیے یہ کیسی دل کی لگی ہے کہ اپنی عمر عزیز مٹائے دیتے ہیں ہم ایک اجنبی کے لیے خود ...

    مزید پڑھیے

    آدمی اک تضاد باہم ہے

    آدمی اک تضاد باہم ہے کبھی جنت کبھی جہنم ہے غم ہے اک نعمت خداوندی جتنا برتو اسی قدر کم ہے التفات آپ کا بجا لیکن کیا خوشی ہے کہ آنکھ پر نم ہے بجھ رہے ہیں چراغ دیر و حرم دل جلاؤ کہ روشنی کم ہے اب کسی سے گلہ نہیں مجھ کو اپنی دنیا ہی اپنا عالم ہے

    مزید پڑھیے

    او کچلنے والے میری زندگی کی ہر خوشی

    او کچلنے والے میری زندگی کی ہر خوشی میرے دل سے چھین لیتا کاش اپنی یاد بھی ہو گئی آخر کو یہ معراج انساں دوستی آدمی سے دوستی کی بھیک مانگے آدمی دوست سے بڑھ کر نبھائے گا کوئی کیا دشمنی قدر گوہر شاہ داند یا بداند جوہری دل پہ کوئی چوٹ لگ جائے تو دل آواز دے تم ابھی واقف نہیں ہوتی ہے ...

    مزید پڑھیے

    دل پہ گر چوٹ نہ لگتی تو نہ عشرت تھی نہ غم

    دل پہ گر چوٹ نہ لگتی تو نہ عشرت تھی نہ غم ساز کے پردے سے باہر نہ نکلتا سرگم ہم کو بخشا ہے زمانے نے جہاں بھر کا الم تاب خورشید سے چھلنی ہوا قلب شبنم اب یہ حالت ہے کہ وہ خود ہوئے مائل بہ کرم آج یاد آئے بہت ہم کو زمانے کے ستم خاک پروانہ دم صبح اڑی جاتی ہے کھل نہ جائے کہیں محفل کے ...

    مزید پڑھیے