غموں کے زخم اٹھاتے رہے خوشی کے لیے

غموں کے زخم اٹھاتے رہے خوشی کے لیے
ترس گئے ہیں محبت کی زندگی کے لیے


کلی تبسم بے ساختہ سے پھول بنی
یہ لمحہ کافی ہے اب پوری زندگی کے لیے


غروب مہر پہ کس نے لہو چڑھایا ہے
یہ کس نے خون جلایا ہے روشنی کے لیے


یہ کیسی دل کی لگی ہے کہ اپنی عمر عزیز
مٹائے دیتے ہیں ہم ایک اجنبی کے لیے


خود اپنے جیسا ہی انسان زندگی مانگے
یہ کیسا وقت خدائی ہے آدمی کے لیے


ابھی نہ توڑو امید وفا کے پھولوں کو
مجھے تو ان کا بھروسہ تھا زندگی کے لیے