ہزار باتیں ہیں دل میں ابھی سنانے کو

ہزار باتیں ہیں دل میں ابھی سنانے کو
مگر زباں نہیں ملتی ہمیں بتانے کو


وہ آنکھیں آج ستارے تراشتی دیکھیں
جنہوں نے رنگ تبسم دیا زمانے کو


ہم اہل ظرف ابھی تک ہیں ایک جنس لطیف
جنہیں کچل دیا دنیا نے آزمانے کو


ہمارے پھول ہمارا چمن ہماری بہار
ہمیں کو جا نہیں ملتی ہے آشیانے کو


سحابؔ اتنے تغیر نواز ہیں ہم بھی
کہ اپنے نغموں نے چونکا دیا زمانے کو