صابر آفاق کی غزل

    دکھائی دے تو رہی ہے بہت حسیں مجھ کو

    دکھائی دے تو رہی ہے بہت حسیں مجھ کو مگر ملائے گی مٹی میں یہ زمیں مجھ کو انہوں نے صرف مرا ایک پہلو دیکھا ہے جو جانتے ہیں وہ پہچانتے نہیں مجھ کو اگر ٹھہرتا تو شاید کچل دیا جاتا کسی نے رکنے کو آوازیں خوب دیں مجھ کو وہ ہاتھ بھیڑ میں چھوٹا سو اس کے جیسا میں تلاش کرتا ہوں شاید ملے ...

    مزید پڑھیے

    اس سمندر میں سنبھل کر ہی اترنا ورنہ

    اس سمندر میں سنبھل کر ہی اترنا ورنہ عشق پر سب ہی کہیں گے تجھے ورنہ ورنہ دیکھنے کی تو اجازت ہے مگر دھیان رہے اس کی آنکھوں میں کسی نے نہ سنورنا ورنہ قوت ثقل ہے جو اپنی طرف کھینچتی ہے کب بلندی سے اترتا بھلا جھرنا ورنہ صرف کاجل کی لکیریں ہی بھلی لگتی ہیں اس کی آنکھوں میں کوئی رنگ ...

    مزید پڑھیے

    پھل ہے گر تو تو میں پتھر ہوں تری قسمت ہے

    پھل ہے گر تو تو میں پتھر ہوں تری قسمت ہے میں اگر تیرا مقدر ہوں تری قسمت ہے کچھ غلط لکھ بھی لیا ہے تو مٹا لے اس کو میں ترے ہاتھ میں ڈسٹر ہوں تری قسمت ہے جان کو جان غنیمت تو عبادت کر لے جان ہوں جسم کے اندر ہوں تری قسمت ہے برف راتوں میں ٹھٹھرنے سے تو اچھا یہ ہے اوڑھ لے مجھ کو میں چادر ...

    مزید پڑھیے

    اس ستم گر میں ڈال دی میں نے

    اس ستم گر میں ڈال دی میں نے جان پتھر میں ڈال دی میں نے کپ میں گرمی دکھا رہی تھی بہت چائے ساسر میں ڈال دی میں نے ماہ بھر کی کمائی جوڑی اور اس کے زیور میں ڈال دی میں نے پھر لپیٹا اسے بہ وقت سحر نیند بستر میں ڈال دی میں نے اک ترا ہجر ایک اس کا وصال آگ ساگر میں ڈال دی میں نے وہ جو ...

    مزید پڑھیے

    تیری دنیا میں چار دن ہوں میں

    تیری دنیا میں چار دن ہوں میں اس لیے بھی تو مطمئن ہوں میں اکتفا کرنا ہوگا تھوڑے پر ایک مزدور کا ٹفن ہوں میں شاید اک رشتہ پاس لائے ہمیں ویسے تو دور کا کزن ہوں میں اک طرف ہجر اک طرف ہے وصل جیسے دو کاغذوں میں پن ہوں میں میں نہیں پر مرا خیال تو ہے تو مجھے اپنے ساتھ گن ہوں میں ہم ...

    مزید پڑھیے

    اپنی گاگر سے مت نکال مجھے

    اپنی گاگر سے مت نکال مجھے اس سمندر سے مت نکال مجھے دل کے اندر قیام ہے میرا صرف باہر سے مت نکال مجھے پیار کرتی ہے مجھ سے ہیروئن یار پکچر سے مت نکال مجھے غم کا موتی ہوں دل میں رہتا ہوں گہرے ساگر سے مت نکال مجھے میں ترے کام کی خبر ہوں مگر نیوز پیپر سے مت نکال مجھے کوئی گولی نہیں ...

    مزید پڑھیے

    ان وفاؤں کا فیصلہ کر دے

    ان وفاؤں کا فیصلہ کر دے بد دعائیں بھی مسکرا کر دے ابر سے صرف اتنا کہنا ہے سارا جنگل ہرا بھرا کر دے عشق میں فائدہ ہے یا نقصان مشورہ مجھ کو آزما کر دے تیرا قد کہکشاں سے اوپر ہے چاند آکاش سے اٹھا کر دے روح تک بھی رسائی ہوگی مری پہلے دل تک تو راستہ کر دے کوئی مصرعے میں آ سمٹ کے ...

    مزید پڑھیے

    اگر یہ رات حسیں ہے تو دن جوان نکال

    اگر یہ رات حسیں ہے تو دن جوان نکال کوئی تو راستہ دونوں کے درمیان نکال خدا نے جوڑا بنایا ہے ہر بشر کے لیے تو اس جہان سے اپنے لیے جہان نکال نہ ایک بوند مری چھت سے ٹپکے اے معمار اس احتیاط سے چھت کی مرے ڈھلان نکال بہت سلیس ہے مجھ کو حلال کر لینا تو اس کا ذکر نہ کر اور میری جان ...

    مزید پڑھیے

    سبق کتاب کا پکا نہیں کیا میں نے

    سبق کتاب کا پکا نہیں کیا میں نے ابھی سمجھنا ہے جیون کا فلسفہ میں نے بجھائی پیاس نہیں بس نہا لیا میں نے لیا ہے کام سمندر سے دوسرا میں نے بھلا وہ آنکھوں سے غم کا پتا لگائے گا کیا پہن لیا ہے یہ چشمہ جو دھوپ کا میں نے ہوا ہے غیر قبیلے کی اک حسیں سے عشق ابھی تو کرنا ہے مشکل کا سامنا ...

    مزید پڑھیے

    منزل پہنچ گیا ہوں میں رستہ کیے بغیر

    منزل پہنچ گیا ہوں میں رستہ کیے بغیر رسوا کیا ہے اس کو تماشا کیے بغیر اوپر سے اپنی پیاس بجھاتا رہا ہوں میں پانی پیا گلاس کو جھوٹا کیے بغیر آتا ہے اس ادا پہ مجھے پیار وہ مری ہر بات مان لیتا ہے غصہ کیے بغیر وہ ایسی روشنی ہے کہ جب بھی مجھے ملے کھلتی نہیں ہے مجھ پہ اندھیرا کیے ...

    مزید پڑھیے