اگر یہ رات حسیں ہے تو دن جوان نکال
اگر یہ رات حسیں ہے تو دن جوان نکال
کوئی تو راستہ دونوں کے درمیان نکال
خدا نے جوڑا بنایا ہے ہر بشر کے لیے
تو اس جہان سے اپنے لیے جہان نکال
نہ ایک بوند مری چھت سے ٹپکے اے معمار
اس احتیاط سے چھت کی مرے ڈھلان نکال
بہت سلیس ہے مجھ کو حلال کر لینا
تو اس کا ذکر نہ کر اور میری جان نکال
کسی کے وصل سے کاٹوں نہیں میں اس کا فراق
بغیر نقل خدا میرا امتحان نکال
تو دل میں درد لیے خوش نہیں رہے گا سن
اگر سکون تجھے چاہیے تو مان نکال
شناخت کر نہ سکے میری میرا مستقبل
تو میرے چہرے سے ماضی کے سب نشان نکال