منزل پہنچ گیا ہوں میں رستہ کیے بغیر

منزل پہنچ گیا ہوں میں رستہ کیے بغیر
رسوا کیا ہے اس کو تماشا کیے بغیر


اوپر سے اپنی پیاس بجھاتا رہا ہوں میں
پانی پیا گلاس کو جھوٹا کیے بغیر


آتا ہے اس ادا پہ مجھے پیار وہ مری
ہر بات مان لیتا ہے غصہ کیے بغیر


وہ ایسی روشنی ہے کہ جب بھی مجھے ملے
کھلتی نہیں ہے مجھ پہ اندھیرا کیے بغیر


اک شاہ باج دیتا ہے دوجے کو ویسے ہی
وہ میری دسترس میں ہے قبضہ کیے بغیر


اس چور پر نظر میں رکھوں بھی تو کس لیے
جو ہاتھ آ گیا مرے پیچھا کیے بغیر


اب دل کی روشنی ہی کرے گی کرشمہ کچھ
خود کو اجالا کرنا ہے شعلہ کیے بغیر