صبا نقوی کی غزل

    نیا شگوفہ اشارۂ یار پر کھلا ہے

    نیا شگوفہ اشارۂ یار پر کھلا ہے گلاب اب کے چمن کی دیوار پر کھلا ہے یہ کیسی انگڑائی لی ہے احساس زندگی نے مسیح کا رنگ روئے بیمار پر کھلا ہے نفی کا جادو جگا رہی ہیں طلسمی آنکھیں وہ حرف مطلب فصیل اظہار پر کھلا ہے کتاب رخ ہے حجاب تقدیس حسن جاناں یہ راز کیسا مذاق دیدار پر کھلا ...

    مزید پڑھیے

    بے معنی لا حاصل ردی شعروں کا ہے جال ادھر

    بے معنی لا حاصل ردی شعروں کا ہے جال ادھر جو چیزیں بیکار ہیں پیارے ان چیزوں کو ڈال ادھر کچھ تجویزیں پاس کرے گا وقت کے ہاتھوں یہ اجلاس مجبور و نادار ادھر ہیں آسودہ خوش حال ادھر بیچ میں حائل کر دے کوئی کاش تکلف کی دیوار ادھر ہے ریلا گل چینوں کا اور گلوں میں کال ادھر خون تمنا کی ...

    مزید پڑھیے

    حیوان کی منزل میں بشر ہے کہ نہیں ہے

    حیوان کی منزل میں بشر ہے کہ نہیں ہے انسان کو انسان کا ڈر ہے کہ نہیں ہے معیار تجلی سے تو واقف ہیں نگاہیں جلوؤں کو بھی انداز نظر ہے کہ نہیں ہے فرزانہ دوراں بھی ہے اس بات پہ خاموش دیوانہ سر راہ گزر ہے کہ نہیں ہے جس عزم سے منزل پہ پہنچتے ہیں مسافر وہ عزم بہ ایں ذوق سفر ہے کہ نہیں ...

    مزید پڑھیے

    دل مضطر کو سمجھا لوں بہت ہے

    دل مضطر کو سمجھا لوں بہت ہے میں خود سے اپنا گھر چھالوں بہت ہے میں اپنی زندگی بے وفا کو وفا کے جام میں ڈھالوں بہت ہے بھگو کر آنسوؤں سے اپنا چہرہ سفر کی گرد دھو ڈالوں بہت ہے سکوت انجمن ٹوٹے نہ ٹوٹے بہ شوق زمزمہ گا لوں بہت ہے نواح زندگی میں اک ذرا سا فریب دوستی کھا لوں بہت ...

    مزید پڑھیے

    افکار کے سانچے میں ڈھلی تازہ غزل ہے

    افکار کے سانچے میں ڈھلی تازہ غزل ہے یا وقت کے پیچیدہ سوالات کا حل ہے یہ سنگ کی بنیاد پہ تعمیر نہ ہوگا یہ میرے تخیل کا حسیں شیش محل ہے میں اپنی محبت کا بدل ڈھونڈ رہا ہوں وہ کون ہے جو میری محبت کا بدل ہے اے تار نفس ٹوٹ بھی جا دیر نہ کر اب احساس کی بالیں پہ کھڑی کب سے اجل ہے جو ...

    مزید پڑھیے

    لب خموش کو ارمان گفتگو ہی سہی

    لب خموش کو ارمان گفتگو ہی سہی جگر میں حوصلۂ عرض آرزو ہی سہی اثر قبول ہے مجھ کو بدلتی قدروں کا رگ حیات میں اسلاف کا لہو ہی سہی نماز عشق ادا ہو رہی ہے مقتل میں یہ پرخلوص عبادت ہے بے وضو ہی سہی اسے بھی خوف ہے گلشن میں زرد موسم کا وہ سرخ پھول کی مانند شعلہ رو ہی سہی جنون عشق کے ...

    مزید پڑھیے

    نغمہ زن ہے نظر بے آواز

    نغمہ زن ہے نظر بے آواز کیوں مرے دل اثر بے آواز میرے دل سے انہیں اپنے دل کی مل رہی ہے خبر بے آواز لاکھ کرنوں کی زباں رکھتا ہے ایک نور سحر بے آواز ہوئی برباد پس بے ہنراں سعیٔ عرض ہنر بے آواز پئے ہنگامۂ ہستیٔ بشر موت ہے چارہ گر بے آواز ہے وہ بے پاؤں گزرنے کی دلیل ارتقا کا سفر بے ...

    مزید پڑھیے

    راہ حیات میں دل ویراں دہائی دے

    راہ حیات میں دل ویراں دہائی دے دشمن کو بھی خدا نہ غم آشنائی دے میں صاحب قلم ہوں مجھے اے شعور فن آئے نہ جو گرفت میں ایسی کلائی دے دنیا فریب رشتۂ باہم نہ دے مجھے جو بھائی چارگی کا ہو پیکر وہ بھائی دے میں اپنا ہاتھ اپنے لہو میں ڈبو نہ لوں جب تک وہ میرے ہاتھ میں دست حنائی دے خنجر ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2