راہ حیات میں دل ویراں دہائی دے
راہ حیات میں دل ویراں دہائی دے
دشمن کو بھی خدا نہ غم آشنائی دے
میں صاحب قلم ہوں مجھے اے شعور فن
آئے نہ جو گرفت میں ایسی کلائی دے
دنیا فریب رشتۂ باہم نہ دے مجھے
جو بھائی چارگی کا ہو پیکر وہ بھائی دے
میں اپنا ہاتھ اپنے لہو میں ڈبو نہ لوں
جب تک وہ میرے ہاتھ میں دست حنائی دے
خنجر ہے جس کے ہاتھ میں پتھر ہے جس کا دل
کیا اس کے سامنے کوئی اپنی صفائی دے
جس پر مرے لہو نے سجایا تھا نقش دل
اے کاش پھر مجھے وہ ہتھیلی دکھائی دے
اس تازہ کربلا میں بھی یا رب دعا یہ ہے
ایثار کو نشیب وفا کو ترائی دے
دوری قرین مصلحت وقت ہے اگر
قربت کے نام پر مجھے داغ جدائی دے
صحن چمن میں گوش بر آواز ہے صباؔ
شاید دل شمیم کی دھڑکن سنائی دے