ruKHsaar Nazimabadi

رخسار ناظم آبادی

رخسار ناظم آبادی کی غزل

    اندھیری شب دیا جگنو قمر نئیں

    اندھیری شب دیا جگنو قمر نئیں سفر میں اب کوئی بھی ہم سفر نئیں ہم ایسے بند کمروں کے مکیں ہیں جہاں تازہ ہواؤں کا گزر نئیں خوشامد چاپلوسی جھوٹ غیبت ہمارے پاس تو کوئی ہنر نئیں جو غربت کے اندھیروں میں پلے ہیں نئی تہذیب کا ان پر اثر نئیں عجب موسم ملا ہے زندگی کو نئی رت ہے درختوں پر ...

    مزید پڑھیے

    عداوتوں کا یوں آغاز اختتام کریں

    عداوتوں کا یوں آغاز اختتام کریں عدو ملے تو اسے خیر سے سلام کریں اب اختیار تبدل بھی ہو گیا حاصل تو اب گلستاں میں رائج نیا نظام کریں ہماری آپسی رنجش ہے چھوڑ دیں ہم پر چلیں حضور چلیں آپ اپنا کام کریں اب اس کے سامنے انصاف کا ترازو ہے انہیں کہیں کہ عدالت کا احترام کریں سفر نصیب جو ...

    مزید پڑھیے

    طفل نے کچھ بھی نہیں سوچا ملا کر لکھ دیا

    طفل نے کچھ بھی نہیں سوچا ملا کر لکھ دیا زندگی اور موت کو بالکل برابر لکھ دیا پہلے تو اک کاغذی کشتی بنائی اور پھر پار جانے کے لئے اس پر مقدر لکھ دیا کل جہاں پر دل لکھا تھا وہ جگہ کمزور تھی میں نے دل کاٹا وہاں سے اور پتھر لکھ دیا میرے ہاتھوں میں مشقت کی لکیریں کھینچ کر جانے کیا ...

    مزید پڑھیے

    لوگ جو صاحب کردار ہوا کرتے تھے

    لوگ جو صاحب کردار ہوا کرتے تھے بس وہی قابل دستار ہوا کرتے تھے یہ الگ بات وہ تھا دور جہالت لیکن لوگ ان پڑھ بھی سمجھ دار ہوا کرتے تھے سامنے آ کے نبھاتے تھے عداوت اپنی پیٹھ پیچھے سے کہاں وار ہوا کرتے تھے جن قبیلوں میں یہاں آج دئے ہیں روشن ان قبیلوں کے تو سردار ہوا کرتے تھے تب ...

    مزید پڑھیے

    اپنا عہد وفا نبھاتا ہوں

    اپنا عہد وفا نبھاتا ہوں اب اسے روز گنگناتا ہوں میری ہمت نہ پوچھئے صاحب ریت پر کشتیاں چلاتا ہوں دو فریقوں کے درمیاں اکثر میں محبت کے پل بناتا ہوں میری امداد اور کچھ بھی نہیں میں فقط حوصلے بڑھاتا ہوں آج کل پنسلوں سے کاغذ پر دھوپ میں روٹیاں بناتا ہوں میں کبھی دشمنی نہیں ...

    مزید پڑھیے

    ہم انہیں یوں ہی آزمائیں گے

    ہم انہیں یوں ہی آزمائیں گے پیار میں شرط کیوں لگائیں گے یہ پرندے ہیں آشیانے کو پر نکلتے ہی بھول جائیں گے یاد رکھنا تمہاری آنکھوں میں ہم بہت جلد جھلملائیں گے کیا تمہیں تب یقین آئے گا لوگ جب انگلیاں اٹھائیں گے درمیاں اپنے آ گئی جو خلیج اس پر اک روز پل بنائیں گے بے وفا زندگی کے ...

    مزید پڑھیے

    اب ہاتھوں میں پیار ہے صاحب

    اب ہاتھوں میں پیار ہے صاحب اور دل میں تلوار ہے صاحب الٹی الٹی رسمیں لے کر یہ الٹا سنسار ہے صاحب مجبوری کی زنجیریں ہیں عشرت کا بازار ہے صاحب سب دریا میں ڈوب رہے ہیں سب کی نیا پار ہے صاحب بھوکے بچے جاگ رہے ہیں ماں گھر میں بیمار ہے صاحب ہم سب ہی دریوزہ گر ہیں روٹی کا بیوپار ہے ...

    مزید پڑھیے

    موت کا ڈر ناخدا کچھ بھی نہیں

    موت کا ڈر ناخدا کچھ بھی نہیں زندگی کا مسئلہ کچھ بھی نہیں آگ پانی اور ہوا کچھ بھی نہیں صرف مٹی تھی بنا کچھ بھی نہیں کچھ لہو کا رنگ اور کچھ آب و گل مجھ میں تو خود ساختہ کچھ بھی نہیں زندگی کی اس حسیں پازیب میں صرف گھنگرو کے سوا کچھ بھی نہیں دید کی خواہش کی موسیٰ نے وہاں لیکن ان پر ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2