طفل نے کچھ بھی نہیں سوچا ملا کر لکھ دیا

طفل نے کچھ بھی نہیں سوچا ملا کر لکھ دیا
زندگی اور موت کو بالکل برابر لکھ دیا


پہلے تو اک کاغذی کشتی بنائی اور پھر
پار جانے کے لئے اس پر مقدر لکھ دیا


کل جہاں پر دل لکھا تھا وہ جگہ کمزور تھی
میں نے دل کاٹا وہاں سے اور پتھر لکھ دیا


میرے ہاتھوں میں مشقت کی لکیریں کھینچ کر
جانے کیا سوچا کہ ماتھے پر سخنور لکھ دیا


جب سوال آیا کہ اک مضمون شاعر پر لکھیں
تو جواباً امن کا شاعر پیمبر لکھ دیا


جنوری تا جون کی محنت مشقت نے جناب
وقت سے پہلے ہی چہرے پر دسمبر لکھ دیا


زندگی تیرے تعارف میں بھلا اور کیا لکھوں
میں نے تو ہر واقعہ ہر ایک منظر لکھ دیا


کر رہے تھے اپنی اپنی داستانیں سب رقم
ایک جوگی نے تو کوزے میں سمندر لکھ دیا