ہم انہیں یوں ہی آزمائیں گے

ہم انہیں یوں ہی آزمائیں گے
پیار میں شرط کیوں لگائیں گے


یہ پرندے ہیں آشیانے کو
پر نکلتے ہی بھول جائیں گے


یاد رکھنا تمہاری آنکھوں میں
ہم بہت جلد جھلملائیں گے


کیا تمہیں تب یقین آئے گا
لوگ جب انگلیاں اٹھائیں گے


درمیاں اپنے آ گئی جو خلیج
اس پر اک روز پل بنائیں گے


بے وفا زندگی کے رشتے کو
آخری سانس تک نبھائیں گے


ایک بازی تری خوشی کے لئے
تجھ سے دانستہ ہار جائیں گے


دور ایسا بھی ایک آئے گا
ظرف کم ظرف آزمائیں گے


آپ کو عاجزی جتائے گی
وہ تکبر میں ہار جائیں گے


پیار کی گفتگو نہیں کیجے
زخم سوئے ہیں جاگ جائیں گے