اب ہاتھوں میں پیار ہے صاحب

اب ہاتھوں میں پیار ہے صاحب
اور دل میں تلوار ہے صاحب


الٹی الٹی رسمیں لے کر
یہ الٹا سنسار ہے صاحب


مجبوری کی زنجیریں ہیں
عشرت کا بازار ہے صاحب


سب دریا میں ڈوب رہے ہیں
سب کی نیا پار ہے صاحب


بھوکے بچے جاگ رہے ہیں
ماں گھر میں بیمار ہے صاحب


ہم سب ہی دریوزہ گر ہیں
روٹی کا بیوپار ہے صاحب


دروازے پر آس لگی ہے
سات سمندر پار ہے صاحب


منزل منزل ڈھونڈ رہا ہوں
کس جانب رخسارؔ ہے صاحب