عداوتوں کا یوں آغاز اختتام کریں

عداوتوں کا یوں آغاز اختتام کریں
عدو ملے تو اسے خیر سے سلام کریں


اب اختیار تبدل بھی ہو گیا حاصل
تو اب گلستاں میں رائج نیا نظام کریں


ہماری آپسی رنجش ہے چھوڑ دیں ہم پر
چلیں حضور چلیں آپ اپنا کام کریں


اب اس کے سامنے انصاف کا ترازو ہے
انہیں کہیں کہ عدالت کا احترام کریں


سفر نصیب جو صحراؤں کے مسافر ہیں
وہ لوگ شہر میں کس طرح اب قیام کریں


وہ جن بزرگوں کا شفقت سے ہاتھ خالی ہو
تو ان بزرگوں کا ہم کتنا احترام کریں


بدل رہی ہیں فضائیں تو خود کو بھی بدلیں
کنیزیں چھوڑیئے آزاد سب غلام کریں


خیال رکھیں مزید اور کوئی دکھ نہ ملے
اب اہل درد یہ جینے کا اہتمام کریں