اب مجھے رنج کیوں نہ ہو اس دل سوگوار سے
اب مجھے رنج کیوں نہ ہو اس دل سوگوار سے
وہ جو تڑپ تڑپ گئے نالۂ بے قرار سے
کون یہ جان رنگ و بو روٹھ گیا بہار سے
غنچے بھی ہیں اداس سے گل بھی ہیں سوگوار سے
بھیگی ہوئی فضا میں ہے ابر بھی ہے ہوا بھی ہے
ایسے میں چھیڑ محتسب کفر ہے بادہ خوار سے
صبح ازل سے تا ابد دور فراق الاماں
اے کہ ٹپک پڑے نہ دل دیدۂ انتظار سے
فرد عمل سیاہ ہو دل تو حسیں ہے واعظا
آج بھی مطمئن ہے رازؔ رحمت کردگار سے