پاس تھے دور ہوئے جاتے ہیں

پاس تھے دور ہوئے جاتے ہیں
کتنے مجبور ہوئے جاتے ہیں


خود کیا ترک تعلق ہم سے
خود ہی رنجور ہوئے جاتے ہیں


عشق میں تیری قسم تیرے بغیر
نالے دستور ہوئے جاتے ہیں


حشر تک اب کوئی پردے میں رہے
ہم بھی منصور ہوئے جاتے ہیں


تجھ سے نسبت جو ہے دیوانوں کو
کتنے مغرور ہوئے جاتے ہیں