حسن جو لب کشا ہوا غنچے چٹک چٹک گئے
حسن جو لب کشا ہوا غنچے چٹک چٹک گئے
ہم تو حریم ناز میں آج بہک بہک گئے
گرمیٔ چشم مست سے شیشے درک درک گئے
جام چھلک چھلک گئے رند بہک بہک گئے
حسن کی بارگاہ میں کہہ نہ سکے حدیث غم
آنکھ اٹھی نہ لب ہلے ہم ہی جھجک جھجک گئے
اس سے بچھڑ کے عمر بھر پھرتے رہے ہیں در بدر
منزلیں سر ہوئیں مگر راہ بھٹک بھٹک گئے
آئی جو مدتوں کے بعد اس بت حیلہ جو کی یاد
ضبط کے باوجود رازؔ اشک ٹپک ٹپک گئے