یہ رنگ ہے تو کہاں ضبط کا رہے گا بھرم
یہ رنگ ہے تو کہاں ضبط کا رہے گا بھرم
نہ اب وہ ناز تغافل نہ مجھ پہ جور و ستم
یہ شاخ گل ہے کہ دل کی جراحتوں کا علم
ہر ایک گل نظر آتا ہے زخم بے مرہم
غبار راہ کہیں ہے نہ کوئی نقش قدم
ابھی ابھی تو یہیں تھے مسافران عدم
اب آ گئے ہیں تو آداب میکشی کی قسم
بس ایک جام رفاقت جناب شیخ حرم
اٹھا تھا کون یہ مینا بدوش و جام بکف
کہ آج ٹوٹ کے برسا ہے ابر بے موسم
کبھی حیا نے کبھی کبر حسن نے روکا
رہی تو ان کی توجہ ادھر مگر کم کم
مگر ہے فطرت انساں میں آذری پنہاں
تراشتا ہے ہر اک شخص خواہشوں کے صنم
انہیں بھی ترک تعلق کا رازؔ غم ہے مگر
بڑھے گی بات اگر ہو گئی وہ آنکھ بھی نم