Raza Azimabadi

رضا عظیم آبادی

رضا عظیم آبادی کی غزل

    سچ کہہ رضاؔ یہ کس سے لگائی ہے ساٹ باٹ

    سچ کہہ رضاؔ یہ کس سے لگائی ہے ساٹ باٹ کچھ پھر ہے ان دنوں میں ترا جی نپٹ اچاٹ دیکھیں گے کیوں کے چشموں سے جاتے رہوگے تم لخت جگر کی چوکی بٹھائی ہے گھاٹ گھاٹ ٹکڑے چنے ہیں دل کے جو آنکھوں کے خوان ہیں ہے کس کے میہمانی کا اے مردماں یہ ٹھاٹ اپنی گلی کے آنے سے مجھ کو نہ منع کر بد نام ہو گے ...

    مزید پڑھیے

    طبیب دیکھ کے مجھ کو دوا نہ کچھ بولا

    طبیب دیکھ کے مجھ کو دوا نہ کچھ بولا خدا کو سونپ دو اس کے سوا نہ کچھ بولا رقیب جست مرا اس کے آگے کرتا ہے سنو تو یارو کوئی آشنا نہ کچھ بولا میں جس سے پوچھا نشاں اس پری کی منزل کا وہ میرے منہ کے تئیں تک رہا نہ کچھ بولا میں عرض کی نہیں تم مجھ سے بولتے ہو کیوں وہ اتنا کہتے ہی سن ہو گیا ...

    مزید پڑھیے

    گل عشاق رنگ باختہ ہے

    گل عشاق رنگ باختہ ہے سرو اپنے چمن کا فاختہ ہے آتش غم سے آب سنگ ہوئے اشک آئینۂ گداختہ ہے عشق بالا ہے حسن سرکش سے سایۂ سرو بال فاختہ ہے کوئی کہتا اسیر ساغر کو ہند میں بھی ہوا مراختہ ہے دیکھ سودا رضاؔ کا دیوانے تیرا مجنوں جنون ساختہ ہے

    مزید پڑھیے

    نکل مت گھر سے تو اے خانہ آباد

    نکل مت گھر سے تو اے خانہ آباد کیا اب ہم نے بھی ویرانہ آباد قبول ہوگا کہیں تو سجدہ اپنا رہیں یہ کعبہ و بت خانہ آباد ہمارا ہی رہے اک جام خالی مغاں رہیو ترا مے خانہ آباد رہے اس زلف سے یہ دل پریشاں ترا گھر ہووے یوں اے شانہ آباد رضاؔ لوٹا ہے کس سفاک نے آ کبھی دل کو ترے دیکھا نہ آباد

    مزید پڑھیے

    جو ترے در پہ میری جاں آیا

    جو ترے در پہ میری جاں آیا مر گیا کہتا میں کہاں آیا دیکھیں اب کس کا پردہ اٹھے گا حرف شکوہ سر زباں آیا مت اٹھا اس کو سو جہت سے ہائے در پہ تیرے یہ ناتواں آیا تیرے ہاتھوں سے بے قرارئ دل جی ہمارا بھی اب بہ جاں آیا تو تو اک ہی طرف سے یاں سے گیا غم ہزاروں طرف سے یاں آیا مر ہی جانا بھلا ...

    مزید پڑھیے

    بتوں کو فائدہ کیا ہے جو ہم سے جنگ کرتے ہیں

    بتوں کو فائدہ کیا ہے جو ہم سے جنگ کرتے ہیں خفا جو زندگی سے ہوں انہیں کیوں تنگ کرتے ہیں ادھر اودھر سے پھر تیری گلی میں دل لے آتا ہے طرف دیر و حرم کے جب کبھی آہنگ کرتے ہیں کسی اور ہی کے گھر کو کیجیو صیاد تو تزئیں ہم اپنے خون ہی سے اس قفس پر رنگ کرتے ہیں بتنگ آ کر کے عالم نے گریباں ...

    مزید پڑھیے

    زلف کھولے تھا کہاں اپنی وہ پھر بے باک رات

    زلف کھولے تھا کہاں اپنی وہ پھر بے باک رات خود بہ خود ہوتا تھا جوں شانہ دل اپنا چاک رات برگ گل شبنم سے تر مت جانیو اے باغباں گل نے دامن سے کیے بلبل کے آنسو پاک رات شمع روشن جوں کہ آتی ہے نظر فانوس میں برقعہ میں تھا جلوہ گر وہ روئے آتش ناک رات مغبچے کے چوکنے سے ہو گیا سارا خلل تھے ...

    مزید پڑھیے

    ابر ہے ابر ہے شراب شراب

    ابر ہے ابر ہے شراب شراب ساقیا ساقیا شتاب شتاب نامہ لکھتا ہوں اور کہے ہے شوق قاصدا قاصدا جواب جواب یار بن اپنی زندگی اے خضر موت ہے موت ہے عذاب عذاب یہ رضاؔ نے غزل کہی اس کا شاعراں شاعراں جواب جواب

    مزید پڑھیے
صفحہ 4 سے 4