Raza Azimabadi

رضا عظیم آبادی

رضا عظیم آبادی کی غزل

    ٹک بیٹھ تو اے شوخ دل آرام بغل میں

    ٹک بیٹھ تو اے شوخ دل آرام بغل میں آئے نہیں اس دل کو بھی آرام بغل میں کیوں کر کے نہ گلخن کی طرح آہ جلیں ہم اک آگ ہے یاں جس کا ہے دل نام بغل میں سر رکھ کے گریبان میں کر سیر جہاں کی آئینہ ترے جیب میں ہے جام بغل میں کس طرح رضاؔ تو نہ ہو رسوائے زمانہ جب دل سا ترے بیٹھا ہو بدنام بغل میں

    مزید پڑھیے

    میرے نالے پر نہیں تجھ کو تغافل کے سوا

    میرے نالے پر نہیں تجھ کو تغافل کے سوا گل نہیں سنتا کسی کا شور بلبل کے سوا تم جو کچھ چاہو کرو جور و عتاب و خشم و ناز کچھ نہیں بنتا ہے عاشق سے تحمل کے سوا جو سخن رس آشنا ہیں زلف و کاکل کے تری ان کو مضموں بھی نہیں ملتا ہے سنبل کے سوا کس طرح مجھ سے جدائی تجھ کو آتی ہے پسند قافیہ گل کا ...

    مزید پڑھیے

    اے بت ناآشنا کب تجھ سے بیگانے ہیں ہم

    اے بت ناآشنا کب تجھ سے بیگانے ہیں ہم تو اگر اس بزم میں مے ہے تو پیمانے ہیں ہم بوسہ لیویں یا گلے لگ جائیں آزردہ نہ ہو چاہنے والے ہیں اور دیوانے مستانے ہیں ہم کب الم اور حسرتیں اپنی کہیں اے دوستاں رات کو بلبل ہیں ہم اور دن کو پروانے ہیں ہم گھورنے سے کیا تمہاری آنکھوں کے ہم ڈر ...

    مزید پڑھیے

    وبال جان ہر اک بال ہے میاں

    وبال جان ہر اک بال ہے میاں تعلق دل کا کیا جنجال ہے میاں طلب میں کون دنیا کی ہو پامال یہ بیت المال کچھ بھی مال ہے میاں یہ کالائے جہاں کا منہ ہو کالا اگر سمجھو تو جی کا کال ہے میاں سنا ہوگا جو کچھ مجنوں کا احوال وہی اپنے بھی حسب حال ہے میاں تڑپ کر رو بہ رو ہم اس کے مر گئے نہ پوچھو ...

    مزید پڑھیے

    یا فقیری ہے یا کہ شاہی ہے

    یا فقیری ہے یا کہ شاہی ہے عشق میں دونوں رو سیاہی ہے اس طرح اس کو موت دے یا رب زندگی میری جس نے چاہی ہے اپنا دکھلا دے گوشۂ دستار گل کو دعوئ کج کلاہی ہے کیوں کے اس پر نہ اے رضاؔ مریے خوب صورت اور سپاہی ہے

    مزید پڑھیے

    یار کو بے باکی میں اپنا سا ہم نے کر لیا

    یار کو بے باکی میں اپنا سا ہم نے کر لیا یعنی اس نے ٹھوکروں میں سر ہمارا دھر لیا عشق رسوا نے دی افزونی حجاب حسن کو جو اٹھا پردہ یہاں سے اس نے واں منہ پر لیا اس کو مے خواری نہیں کہتے ہیں خوں خواری ہے یہ میرے دل سے لی گزک اور غیر سے ساغر لیا نام کو دل میں جگہ چھوڑی نہ داغ عشق نے ایک ...

    مزید پڑھیے

    اس گھڑی کچھ تھے اور اب کچھ ہو

    اس گھڑی کچھ تھے اور اب کچھ ہو کیا تماشا ہو تم عجب کچھ ہو مجھ کو کچھ دل پر اختیار نہیں تمہیں اس گھر کے اب تو سب کچھ ہو کچھ نہیں بات تس پہ یہ باتیں قہر کرتے ہو تم غضب کچھ ہو بہت کی شرم تھوڑی سی پی کر اس کے رکھتا ہوں لب پہ لب کچھ ہو عشق بازی نہیں رضاؔ بازی پہلے جاں بازی کیجے جب کچھ ...

    مزید پڑھیے

    شرمندہ نہیں کون تری عشوہ گری کا

    شرمندہ نہیں کون تری عشوہ گری کا بے وجہ نہیں منہ کا چھپانا ہے پری کا جو لب کو ترے دیکھ کے بے ہوش نہ ہووے دعویٰ اسی کو بھاتا ہے صاحب جگری کا تم دل ہی میں پلتے رہے ہو سیکھا کہاں سے اے اشک یہ شیوہ جو لیا پردہ دری کا جس طرح سنے مجھ سے کہے یار سے جا کر یہ ڈھب کسی کو آتا ہے پیغامبری ...

    مزید پڑھیے

    عشق کی بیماری ہے جن کو دل ہی دل میں گلتے ہیں

    عشق کی بیماری ہے جن کو دل ہی دل میں گلتے ہیں مردے ہیں وہ حقیقت میں ظاہر میں پھرتے چلتے ہیں جب راہ میں مل گئے کہنے لگے تیرے ہی گھر میں جاتا تھا جاؤ چلے لڑکا تو نہیں میں مجھ کو اپنے مچلتے ہیں اوروں کے لگانے بجھانے سے اتنا جلاتے ہو مجھ کو ڈریے ہماری آہوں سے ہم لوگ بھی جلتے بلتے ...

    مزید پڑھیے

    میں ہی نہیں ہوں برہم اس زلف کج ادا سے

    میں ہی نہیں ہوں برہم اس زلف کج ادا سے ٹک منہ ترا جو پائیں الجھیں ابھی ہوا سے تم نے نکالنے میں کچھ کم نہ کیں جفائیں اب تک جو تھم رہے ہیں ہم اپنی ہی وفا سے پہلی نگہ میں دل پر برچھی سی لگ گئی ہے پہنچے تھے انتہا کو ہم اس کی ابتدا سے رکھنا قدم زمیں پر ٹک دیکھ کر پیارے دل راہ میں پڑے ہیں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 4