یار کو بے باکی میں اپنا سا ہم نے کر لیا

یار کو بے باکی میں اپنا سا ہم نے کر لیا
یعنی اس نے ٹھوکروں میں سر ہمارا دھر لیا


عشق رسوا نے دی افزونی حجاب حسن کو
جو اٹھا پردہ یہاں سے اس نے واں منہ پر لیا


اس کو مے خواری نہیں کہتے ہیں خوں خواری ہے یہ
میرے دل سے لی گزک اور غیر سے ساغر لیا


نام کو دل میں جگہ چھوڑی نہ داغ عشق نے
ایک مہماں ایسا آیا جس نے سارا گھر لیا


ذوق دیکھو مجھ سے صید ناتواں کے واسطے
تیغ لی اک ہاتھ میں اک ہاتھ میں خنجر لیا


میں ستارہ سوختہ وہ ہوں کہ جس کا زائچہ
اس گھڑی کھینچا گیا جب داغ کا اختر لیا


چشم و دل رکھو ہو یارو جاؤ ٹک دیکھو اسے
مجھ سے کیا کہتے ہو اس نے دل ترا کیوں کر لیا


اے رضاؔ راہ میں خضر کی مت راہ دیکھ
گھر کے جانے میں کسی نے بھی بھلا رہبر لیا