ٹک بیٹھ تو اے شوخ دل آرام بغل میں
ٹک بیٹھ تو اے شوخ دل آرام بغل میں
آئے نہیں اس دل کو بھی آرام بغل میں
کیوں کر کے نہ گلخن کی طرح آہ جلیں ہم
اک آگ ہے یاں جس کا ہے دل نام بغل میں
سر رکھ کے گریبان میں کر سیر جہاں کی
آئینہ ترے جیب میں ہے جام بغل میں
کس طرح رضاؔ تو نہ ہو رسوائے زمانہ
جب دل سا ترے بیٹھا ہو بدنام بغل میں