خزاں بلائے مگر روکے ہیں بہار مجھے
خزاں بلائے مگر روکے ہیں بہار مجھے
میں ٹھہری رت ہوں کبھی آ کے تو گزار مجھے
میں عکس تھی تو تری دسترس سے باہر تھی
ہوئی ہوں روپ تو حاصل ہوں اب نکھار مجھے
میں ڈھل چکی ہوں کسی سانچے میں بہت پہلے
نہ اور بننے کی کچھ چاک سے اتار مجھے
نہ جانے کتنے نئے رنگ مجھ میں اگتے ہیں
وہ ایک لمس بنا دیتا ہے بہار مجھے
میں ہجرتوں کے کئی دشت پار کر آئی
اے مجھ سے بچھڑی زمیں اب تو تو پکار مجھے