نہ گل کھلے نہ شگوفوں پہ تازگی آئی
نہ گل کھلے نہ شگوفوں پہ تازگی آئی خزاں کے بعد چمن میں بہار بھی آئی ہجوم غم میں کہاں فرصت تبسم بھی ذرا بھی یاد نہیں کب مجھے ہنسی آئی کوئی بھی جادۂ نو خود بخود نہیں بنتا یہ بات سمجھو گے جس روز کج روی آئی میں اک شجر ہوں اٹھاتے ہیں فائدہ سب لوگ نہ دشمنی مرا شیوہ نہ بے رخی آئی ہمارے ...