نہ گل کھلے نہ شگوفوں پہ تازگی آئی
نہ گل کھلے نہ شگوفوں پہ تازگی آئی
خزاں کے بعد چمن میں بہار بھی آئی
ہجوم غم میں کہاں فرصت تبسم بھی
ذرا بھی یاد نہیں کب مجھے ہنسی آئی
کوئی بھی جادۂ نو خود بخود نہیں بنتا
یہ بات سمجھو گے جس روز کج روی آئی
میں اک شجر ہوں اٹھاتے ہیں فائدہ سب لوگ
نہ دشمنی مرا شیوہ نہ بے رخی آئی
ہمارے ساتھ ہمیشہ یہ حادثہ گزرا
بدل کے بھیس رقابت کا دوستی آئی
زمیں تو خود ہی چمکتا ہوا ستارہ ہے
نہ جانے کیسے یہاں تیرگی چلی آئی
غم حیات سلامت تجھے خدا رکھے
ترے سبب غم جاناں میں پختگی آئی
ہزار بار سنی حوصلہ شکن باتیں
مری جبیں پہ نہ کوئی شکن کبھی آئی
کلی کو کون تبسم سے روک سکتا ہے
سوال یہ ہے کہ پھولوں کو کیوں ہنسی آئی
اندھیری رات کا منظر ہمیشہ رہتا ہے
کرن اجالے کی گھر میں کبھی کبھی آئی
خدا کے نام پہ مردم کشی رہی جاری
لہولہان ہی آئی ہے جو صدی آئی